فلسطین: خون کی ہولی، خاموش دنیا اور اسلامی دنیا کا دوغلا کردار
دنیا نے دیکھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ہوئی تو امریکا، قطر، یورپی ممالک، اقوامِ متحدہ، حتیٰ کہ وہ عالمی تنظیمیں جو صرف "بیان بازی" کے لیے جانی جاتی ہیں، سب بیدار ہو گئے۔ عالمی قوانین کی بات ہونے لگی، سفارتی دباؤ ڈالا گیا، جنگ بندی کی اپیلیں ہوئیں، مذاکرات کی میزیں سجی، سب کچھ فوراً ہوا۔
لیکن سوال یہ ہے:
جب بات فلسطین کی آتی ہے، تو یہ دنیا اندھی، بہری اور گونگی کیوں ہو جاتی ہے؟
فلسطین کے بچوں کا خون کیوں ارزاں ہے؟
غزہ میں جو ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں، نسل کشی ہے۔ نہتے، بھوکے، زخمی، معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے قتل کیا جا رہا ہے۔
کیا ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ہیں؟ یا یہ کہ ان کے پاس ایٹم بم نہیں؟
کیوں دنیا کو تب انسانیت یاد آتی ہے جب مظلوم کی پشت پر طاقتور ملک کھڑا ہو؟
کیا مظلوم ہونے کے لیے بھی اب ایٹم بم یا سپر پاور کا حمایتی ہونا شرط ہے؟
اسلامی دنیا: صرف بیانات کافی نہیں ہر اسلامی ملک فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے بیانات دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے
کیا صرف بیانات سے بچوں کی لاشیں دفنائی جا سکتی ہیں؟
کیا خالی سوشل میڈیا پوسٹس سے بمباری رک سکتی ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ ایران ہو یا ترکی، سعودی عرب ہو یا پاکستان — سب کے پاس طاقت ہے، اثر و رسوخ ہے، لیکن جب عملی قدم اٹھانے کی بات آتی ہے، تو سب "مفادات" کی آڑ میں چھپ جاتے ہیں۔
:امریکا اور عالمی تنظیمیں
دوغلا معیارامریکا اگر چاہے تو ایک دن میں جنگ رکوائے۔ جب اسرائیل پر خطرہ آیا، تو پورا نیٹو نظام حرکت میں آ گیا، لیکن جب غزہ میں بچوں کے جسم ٹکڑوں میں بٹ رہے تھے، تب امریکا نے صرف اتنا کہا:
"اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔"
یہ جملہ دنیا کے سب سے بڑے جھوٹوں میں شامل ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ خاموش تماشائی بنی رہی، WHO، UNICEF، Human Rights Watch سب کو اچانک نیند آ گئی۔
آخر کب تک؟
یہ سوال صرف فلسطین کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ اگر آج دنیا فلسطین کے لیے نہ بولی، تو کل یہی ظلم کسی اور پر ہوگا۔ اور شاید تب ہم میں سے کسی کی باری ہو۔
اختتامیہ:
فلسطین کے شہداء کی لاشیں آج بھی ہمیں جھنجھوڑ رہی ہیں۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرنے کا کہ ہم انسان ہیں، مسلمان ہیں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
.png)
.png)
.png)
.png)