یکم محرم: یومِ شہادتِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ
ایک عادل خلیفہ، ایک عظیم شہادت
یکم محرم الحرام تاریخِ اسلام کا وہ دن ہے جو ہمیں عدل، جرأت اور قربانی کی وہ داستان یاد دلاتا ہے، جسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے خون سے رقم کیا۔ وہی عمر جنہیں نبی اکرم ﷺ نے "میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا" کے الفاظ سے یاد کیا، آج بھی مسلمانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔
:خلافت کا پس منظر
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد دوسرے خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ کی خلافت کا دور (10 سال، 6 ماہ) اسلام کی تاریخی فتوحات، عدل و انصاف، اور انتظامی اصلاحات کا دور کہلاتا ہے۔
عراق، شام، مصر، فارس، بیت المقدس آپ کے دور میں فتح ہوئے آپ نے اسلامی ریاست میں عدالت، بیت المال، پولیس، ڈاک، اور مردم شماری جیسے نظام متعارف کروائے آپ کو "امیر المؤمنین" کا لقب بھی دیا گیا
:شہادت کا پس منظر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ذوالحجہ 23 ہجری کے آخر میں ہوا، اور 1 محرم 24 ہجری کو آپ کی شہادت ہوئی۔
قاتل کون تھا؟
قاتل کا نام فیروز ابولؤلؤا المجوسی تھا، جو ایک مجوسی (آتش پرست) غلام تھا۔ وہ مغلوب قوم کا فرد تھا اور اسلامی خلافت کے عدل و قوت سے نالاں تھا۔
: حملے کا واقعہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ روز کی طرح فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد نبوی ﷺ تشریف لائے۔ جب آپ نے "اللہ اکبر" کہہ کر نماز شروع کی، تو ابولؤلؤا نے چھری سے یکے بعد دیگرے چھے وار کیے۔
حملہ اچانک، پیچھے سے کیا گیا خنجر دو دھاری اور زہر آلود تھا
حضرت عمر شدید زخمی ہو کر گر پڑے، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کرائی
حملہ آور نے بھاگتے وقت مزید 12 نمازیوں کو زخمی کیا، جن میں سے 6 شہید ہوئے۔ آخر کار اس نے خودکشی کر لی۔
: آخری ایام اور وصیت
شدید زخمی ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو گھر لایا گیا۔ جب انہیں ہوش آیا، پہلا سوال یہ کیا:
> "کیا مسلمانوں نے نماز مکمل کر لی؟"
(یہ آپ کی نماز سے محبت اور امت کی فکر کو ظاہر کرتا ہے)
: آپ نے تین اہم کام کیے
شہادت کی تصدیق: آپ نے فرمایا، اگر میں زندہ رہا، تو خود بدلہ لوں گا، ورنہ میرا بدلہ اللہ لے گا
خلافت کی وصیت: آپ نے ایک کمیٹی (شوریٰ) مقرر کی جس میں 6 جلیل القدر صحابہ شامل تھے تاکہ اگلا خلیفہ منتخب ہو
مدفن کی خواہش: آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جا کر کہو
"عمر اجازت مانگتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کے پہلو میں دفن ہو جائے"
حضرت عائشہ نے روتے ہوئے اجازت دے دی
: وصال اور تدفین
یکم محرم محرم الحرام، 24 ہجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ آپ کی نمازِ جنازہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، اور آپ کو نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ورثہ
عدل کی ایسی مثال جو قیامت تک یاد رکھی جائے گی طاقتور ہو کر بھی نرم دل، غریبوں کا محافظ ہر دور کے حکمران کے لیے معیار اور نمونہ
:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا"
(ترمذی)
: سبق اور پیغام
قیادت صرف حکومت نہیں، ذمہ داری اور قربانی ہے ایک حکمران کے دل میں نماز اور عوام بسے ہوتے ہیں شہادت سے پہلے بھی امت کی فکر، بعد میں بھی سچائی کی وصیت
: دعا
یا اللہ! ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی جرأت، عدل، اور ایمانی بصیرت عطا فرما
یا اللہ! ہمیں حق کا ساتھ دینے اور باطل سے لڑنے کی توفیق دے
آمین
.png)